top of page
Search
Writer's pictureMahmood Tareen

فوڈ سیکورٹی :جھل مگسی سمیت پورے بلوچستان کا مسئلہ | تحریر:محمود احمد ترین

اکسیویں صدی کے اس جدید اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے انقلابی دور میں بھی حضرت انسان بہت سارے ایسے مسائل سے دوچار ہے جو آج کے نہیں بلکہ صدیوں سے چلے آرہے ہیں مثال کے طو رپر غربت ، بھوک ، افلاس اوربنیادی سہویات کی عدم دستیابی جیسے مسائل ۔ ان مسائل سے نمٹنے کے لئے مختلف ممالک کی حکومتیں کوشاں ہیں ، کمیونٹی سطح پر بھی اقدامات کا سلسلہ جاری ہے جبکہ اقوام متحدہ کے ذیلی اداروں سمیت بہت سارے نیشنل اور انٹر نیشنل ڈونرایجنسیز بھی ان مسائل کے خاتمے کے لئے نہ صرف کوشاں ہیں بلکہ بہت غیر معمولی وسائل بھی وقف کئے گئے ہیں اس کے باوجود رپیش مسائل میں کمی نہیں آرہی ۔ہمارے صوبے بلوچستان کی اگر بات کریں تو یہاں بہت سارے ایسے مسائل آج بھی موجود ہیں جو ہم سب کی بنیادی توجہ چاہتے ہیں ۔



فوڈ سیکورٹی ایسے ہی درپیش مسائل میں ایک اہم اور سر فہرست مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لئے جس قدر تیزی اور برق رفتاری سے کام کیا جائے کم ہے ۔ ہم سب مل کر کس طرح سے فوڈسیکورٹی ، غربت ، غذائی قلت اور دیگر مسائل کے حل اور خاتمے کے لئے اپنا فعال و متحرک کردار ادا کرسکتے ہیں اور اس ضمن میں کمیونٹی کی فعالیت کس قدر ضروری ہے اس حوالے سے میں یہاں ایک ذاتی تجربہ قارئین کو بتانا چاہتا ہوں یہ قصہ ضلع جھل مگسی میں فوڈ سیکورٹی رسپانس کے اس پراجیکٹ کا ہے جو یو این اوچا کے تعاون سے تعمیر خلق فاﺅنڈیشن نے مکمل کیا اور اس کی بدولت ضلع جھل مگسی کے درجنوں دیہات میں سماجی ترقی اور معاشی خوشحالی کے غیر معمولی مواقع میسر آئے ۔


اس پراجیکٹ کا تذکرہ اور خدوخال بیان کرنے سے قبل بزات خود تعمیر خلق فاﺅنڈیشن کا تعارف ضروری ہے جس نے سولہ سترہ سال کے قلیل عرصے میں نہ صرف بلوچستان بلکہ ملک بھر کی سطح پر اپنی فعالیت اور مثالی تنظیم کا لوہا منوایا ہے ۔ ٹی کے ایف” تعمیر خلق فاﺅنڈیشن “کا قیام سال دو ہزار چار میں غیر سرکاری فلاحی اور سماجی ادارے کے طو رپر عمل میں لایا گیا انتہائی معمولی وسائل سے اپنے سفر کا آغاز کرنے والی اس فاﺅنڈیشن نے قلیل عرصے میں نہ صرف بلوچستان کے طول و عرض بلکہ ملک بھر میں متعدد اہم پراجیکٹس مکمل کئے اس وقت بھی ملک کے تین صوبوں اور ۳۲اضلاع میں پچاس سے زائد منصوبوں پر کام جاری ہے جس سے براہ راست ڈیڑھ ملین سے زائد افراد ( خواتین ،بزرگ اور بچے ) مستفید ہوئے اور ہورہے ہیں بنیادی طو رپر تعلیم ، صحت اور دیگر سماجی شعبوں بالخصوص غربت و افلاس کے خاتمے اور سماجی مسائل کے خاتمے اور بے روزگارنوجوانوں کوروزگار کے مواقع کی فراہمی کے لئے اس ادارے نے اقدامات کا سلسلہ شروع کیا اس دوران زلزلے ، سیلاب اور دیگر قدرتی آفات کے دوران ٹی کے ایف نے متاثرین کی امداد اور ان کی بحالی کے لئے قلیل عرصے میں کارہائے نمایاں سرانجام دیئے ٹی کے ایف انتظامیہ اور کارکن ایک ایسے معاشرے کے قیام کے لئے کوشاں ہے جہاں ہر شخص کو روزگار اور آگے بڑھنے کے مواقع دستیاب ہوں ہر شہری کو صحت ، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولیات بہ آسانی دستیاب ہوں ۔


فاﺅنڈیشن کے منصوبوں کی نگرانی تیسری پارٹی سے بھی کرائی جاتی رہی ہے جس میںحددرجہ شفافیت اور میرٹ کا خیال رکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ جن جن علاقوں میں ٹی کے ایف کے تحت پراجیکٹس مکمل ہوئے ان علاقوں کے رہنے والے عوام نے اپنی طرز زندگی میں نمایاں اور انتہائی مثبت تبدیلیوں کا مشاہدہ کیا ۔یو این ایچ سی آر ، یونیسف ، یو این او سی ایچ اے ، یو این ڈی پی ، ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) ، اقوام متحدہ - ہیبی ٹیٹ ، فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن (ایف اے او) ، انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی (آئی آر سی) سمیت دیگر بین الاقوامی اداروں کی معاونت سے مکمل ہونے والے ان پراجیکٹس کی بدولت مذکورہ علاقوں میں معاشی و معاشرتی ترقی کے اہداف کے حصول میں نمایاں کامیابی حاصل ہوئی ہے اس کا ایک بین ثبوت فورڈ سیکورٹی رسپانس پراجیکٹ بھی ہے جس کا مقصدجھل مگسی کے مختلف دیہات میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر فوڈ سیکورٹی اور دیگر مسائل اکا خاتمہ یقینی بنانا تھا ۔جس وقت ٹی کے ایف کے زیراہتمام یو این اوچا کے تعاون سے مذکورہ پراجیکٹ کا اجراءہورہا تھا عین اسی وقت جھل مگسی اور ملحقہ علاقوں میں بدترین سیلاب آیا جس کی وجہ سے علاقے میں غیر معمولی ہنگامی حالات دیکھنے میں آئے اپنے پہلے سروے دوران ہی ہم نے محسوس کیا کہ مختلف گروہوں کی مختلف ضروریات ہیں۔ بعض لوگ ایسے ہیں جن کا سیلاب کی وجہ سے اس قدر نقصان ہوا ہے کہ اب انہیں کھانے کے لالے پڑے ہیں اکثر لوگوں کو کھانے پینے کی اشیاءدرکار ہیں کچھ علاقے ایسے ہیں جہاں آبی قلت عروج پر ہے بہت سے علاقوں میں زراعت اور لائیوسٹاک تباہ ہوئی ہے۔ اور چونکہ مذکورہ علاقوںمیں غربت کی شرح کافی زیادہ ہے سو ہم نے پراجیکٹ کے خدوخال پر از سرنو غور کیا اور اس کے بعد منظم حکمت عملی اورمنصوبہ بندی کے ساتھ پراجیکٹ کو عملی جامہ پہنانا شروع کیا۔


ہم نے نقد رقوم ، فنی مہارت اور دیگر تجاویز پیش کیں ہم نے بعض لوگوں کے لئے رقم کی مشروط فراہمی طے کی یعنی ہم رقم دیں اور اس کے بعد یہ لوگ اپنے گھر باراور کھیت کھلیان میں کام کریں دوسرا طبقہ وہ تھا جس کا گھریلو سربراہ یا تو بوڑھا ہے یا دائمی امراض میں مبتلا ہے ان گھرانوں کے لئے ہم نے غیر مشروط طور پر رقم کی فراہمی کا فیصلہ کیا یہ پراجیکٹ بائیس ستمبردو ہزار بیس سے اکیس فروری دو ہزار کیس تک تھا اس دوران ہم نے پراجیکٹ کے تحت ضلع مگسی کی یونین کونسل مٹ سندھڑ میں155۱ خاندانوں میں زرعی اجناس ، کھاد ، بیج اور دیگر آلات تقسیم کئے143افراد کو لائیوسٹاک سے متعلق آلات ، 35خاندانوں کو کچن گارڈننگ ،323افراد کو کیش فار ورک کی مد میں رقوم دیں ، اسی طرح یونین کونسل میر پور میں187۱ افراد میں زرعی آلات ،163افراد میں لائیوسٹاک ،40 خاندانوں میں کچن گارڈننگ،264افراد کو کا م کے بدلے رقوم دیں یونین کونسل پتری میں225 افراد کو زرعی آلات ،41 کو لائیوسٹاک ان پٹس،70 کو کچن گارڈننگ اور193فراد کو کام کے بدلے رقوم دیں جھل مگسی کی ایک اور یونین کونسل ہے کھاری ۔ یہاں383 افراد کو زرعی آلات 353 کو لائیوسٹاک،255 کوکچن گارڈننگ 320 افراد کو نقدرقم دی ۔ نقد رقوم کے بدلے ان افراد سے جو کام لیا گیا وہ خود کمیونٹی کا اجتماعی کام تھا مثال کے طور پر کہیں تالاب اور نالیوں کی صفائی ، کہیں کنوﺅں کی کھدائی ، کہیں ان کی اپنی بنجر زمین کو ہموار کرکے قابل کاشت بنانا جیسے کام ان افراد سے لئے گئے یوں یونین کونسل مٹ سندھڑ، میر پور،پتری اور کھاری میں مجموعی طو رپر 3050افراد سے اس پراجیکٹ سے براہ راست مستفید ہوئے اس طرح ضلع جھل مگسی میں غذائی قلت کے مسئلے میں کسی حد تک کمی آئی ہے مگر ہنوز نہ صرف جھل مگسی بلکہ جھل مگسی سمیت پورے صوبے میں غذائی قلت ، غربت ، بے روزگاری اور دیگر مسائل موجود ہیں ان مسائل کے حل کے لئے حکومت کے ساتھ ساتھ غیر سرکاری فلاحی تنظیموں اور ڈونر ایجنسیز کو بھی اپنا فعال اور متحرک کردار ادا کرنا ہوگا تاکہ ان مسائل کا خاتمہ یقینی بنایا جاسکے ۔

307 views1 comment

Recent Posts

See All

1 Comment


Abdul Malik
Abdul Malik
May 14

Balochistan Education System

Being the country’s largest province, Balochistan has long struggled with infrastructure issues, particularly a deficient education system. Thousands of students in the province are being denied their right to education due to prolonged administrative negligence and mismanagement. According to official data, around 0.8 million school-age children are currently out of school, The challenges worsened with the superfloods in 2022, which led to the destruction of over 5,500 schools. Unfortunately, only 50 of these schools have been repaired to date. Adding to these difficulties and 1,964 schools lack proper buildings. Half of Balochistan's 12,000 primary schools have only one teacher. With more than 300 teachers retiring each month and the absence of a proper recruitment mechanism, the province is now…

Like
bottom of page